افغانستان کے لیے مزید فوجیوں کی باضابطہ درخواستNew Delhi, Sep 27: افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میکرسٹل نے افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کی باضابطہ درخواست کر دی ہے۔ جنرل میکرسٹل کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کی درخواست بذات خود امریکی چیئرمین آف جنرل سٹاف مائیک ملن اور نیٹو افواج کےسربراہ کو جرمنی میں حوالے کی ہے۔ جنرل میکرسٹل نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں اپنے حالیہ جائزے میں کہا تھا کہ اگر امریکہ اور نیٹو ممالک نے افغانستان میں مزید فوجی نہ بھیجے تو اتحادی افواج کو افغانستان میں شسکت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس وقت امریکی اور اس کے اتحادیوں ممالک کے ایک لاکھ فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنرل میکرسٹل نے مزید کتنے ہزار فوجیوں کی درخواست کی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق جنرل میکرسٹل نے مزید تیس ہزار فوجیوں کی درخواست کی ہے۔ جنرل میکرسٹل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فوجی حکمت عملی کو یکسر بدلنے کی ضرورت ہے اور افغان عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے اتحادی افواج کو افغان عوام کا محافظ بننے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اکیس ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا تھا۔ صدر براک اوباما افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کے فیصلے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ کسی ایسی درخواست کو قبول کرنے سے پہلے فوج کو کچھ مشکل سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔ امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں مزید فوجیوں کو بھیجنے کی درخواست پر وہ اس وقت اپنا فیصلہ نہیں کریں جب تک وائٹ ہاؤس افغان پالیسی پر نظر ثانی کا کام مکمل نہیں کر لیتے۔ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے مطابق صدر صدر براک اوباما ان امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کی جائے اور وہاں اور پاکستان میں القاعدہ کا خاتمہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ گزشتہ پالیسی کے از سرِ نو جائزے کی وجہ زمینی صورتِ حال کی خرابی، افغان انتخابات سے پیدا ہونے والی خرابیاں اور صدر اوباما کے کمانڈر سٹینلے میک کرسٹل کی طرف سے افغان جنگ پر خطرناک رپورٹ ہے۔ امریکی صدر کے مشیروں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے مارچ میں جس حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا کیا اس سے اب بھی بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کیا یہ پالیسی جنرل میک کرسٹل کے مزید فوجیوں کے مطالبے کے ساتھ چل سکتی ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کی درخواست پر فوری حکم جاری نہ کرنے کے فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ براک اوباما کی مخالف سیاسی جماعت ریپلیکن پارٹی نے کہا ہے کہ صدر اوباما ڈگمکا رہے ہیں۔ ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق امریکی عوام کی اکثریت افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کےمخالف ہیں۔ عوامی جائزے کےمطابق امریکی عوام کا پچاس فیصد حصہ مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی مخالف ہے جبکہ اکتالیس فیصد اس کے حق میں ہیں۔ اگرچہ صدر اوباما افغانستان کے استحکام کو امریکی سکیورٹی کے لیے مرکزی نکتہ قرار دیتے ہیں لیکن کچھ مشیروں کا خیال ہے کہ وہ بیرون ملک کسی دلدل میں نہیں پھنسنا چاہتے۔ اطلاعات کے مطابق صدر اوباما کے سامنے جو نئی تجاویز رکھی جا رہی ہیں ان میں نائِب صدر جو بائِڈن کی فوجیوں میں کمی کی تجویز بھی ہے۔ جو بائڈن کی تجویز کے مطابق افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو لوگوں کو طالبان سے بچانے کی بجائے اپنی توجہ القاعدہ کے مرکز ختم کرنے دینی چاہیے۔
|